ڈپریشن۔۔۔ ڈپریشن آخر ہے کیا؟ - انور سلطانہ


what is depression


کسی کے لیے اس کی جاب کا چھین جانا، کسی کے لیے اس کا امتحان میں ناکا م ہو جانا ،کسی کے لیے اپنے پیارے کو کھو دینا یا کسی کے لیے اس کی قیمتی چیز کا نقصان ہو جانا کیا یہ سب کیفیات ڈپریشن کی وجوہات کے زمرے میں آتی ہیں ؟ ڈپریشن دراصل ایک ایسا خطرناک مرض ہے۔ جو نہ صرف آپ کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے بلکہ یہ آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پربھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔


ہمارے ہاں ہر انسان کے لیے ڈپریشن کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن اس سے ہونے والے منفی نقصانات تقریبا'' سب کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ویسے تو میں ایک میڈیا کی سٹوڈنٹ ہو لیکن جب میں نے گریجویشن کی تو میرا سب سے بنیادی مضمون سائیکالوجی(نفسیات) تھا۔ جیسےجیسے میں اس مضمون کی گہرائی میں جاتی گئی تو میں نے محسوس کیا کہ ہمارے اردگرد موجود تمام لوگ کسی نہ کسی طرح ڈپریشن میں مبتلا ہیں کیونکہ ہم اکثر اداسی ،مایوسی اور بیزاری کا شکار رہتے ہیں اور ان علامات کا دورانیہ یا تو بہت طویل عرصے تک مبنی ہو تا ہے یا پھر یہ علامات کچھ دنوں میں ختم ہو جاتی ہے۔

ان علامات میں ٹھیک سے نیند نہ آنایا زیادہ آنا، بھوک نہ لگنا یا وزن میں کمی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور توجہ اور یاداشت کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں ۔ ماہر ین کے مطابق اگر یہ علامات ایک سے دو ہفتوں تک مسلسل جاری رہتی ہے تو اس کو ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔


بعض اوقات یہ کیفیات اس قدر شدید ہو جاتی ہے کہ اس سے ہمارے روزمرہ زندگی کے معمولات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔اور تو اور اس بیماری کے شکار افراد اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔ آج کے زمانے میں یہ مرض اس قدر عام ہو چکا ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی شخص اس سے محفوظ بچا ہو۔اگر دیکھا جائے تو مردوں کے مقابلے میں خواتین اس مرض میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔


معاشرے کے بڑھتے ہوئے مسائل ،کم آمدنی اور زائد اخراجات، گھریلو پریشانیاں اور ملک کے بگڑتے ہوئے حالات نے انسان کو ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔ہر روز ہمیں کسی نہ کسی ایسی صورت حال سے گذرنا پڑتا ہے جس سے ہم مزید الجھنوں، ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپر یشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے جو زیادہ آبادی والے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں بلند ترین سطح پر ہے ۔ماہرین کے مطابق اگر ڈپریشن کے مریضوں کی شرح اسی حساب سے بڑھتی رہی تو 2050ء تک پاکستان ذہنی مسائل اور بیماریوں کے حوالے سے عالمی ریکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔

ڈپریشن کی مختلف قسمیں ہیں جن میں نفسیاتی ،جسمانی اور دماغی ڈپر یشن شامل ہے، غلط اور منفی سوچ نفسیاتی ڈپریشن کا سبب بنتی ہے اور اس کے علاوہ مسلسل ناکامی بھی اسی زمرے میں آتی ہے ۔ گندی اور غیر معیاری خوراک جسمانی ڈپریشن میں چلی جائے گی ۔بعض اوقات زندگی میں سب اچھا چل رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہم بیزار ہوتے ہیں ،کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ،کسی سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا اور بغیر کسی بات کے موڈ خراب رہتا ہے یہ سب جسمانی ڈپریشن کی وجہ سے ہوتا ہے


اکثر لوگ ڈپریشن سے نکلنے کے لیےسائیکاٹرسٹ کے پاس جاتے ہیں اور دوائیوں کا استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ شراب نوشی ،سگریٹ یا کسی دوسرے قسم کے نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہم ورزش اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی ڈپریشن سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور ہمیں جب ڈپریشن کی کیفیت محسوس ہو تو ہم اپنے پیاروں اور عزیزواقارب کے ساتھ وقت گزار کر بہتر محسوس کر سکتے ہیں ۔

لیکن ایک لکھاری ہونے کے باعث اس بارے میں میرا نظریہ میں تھوڑا مختلف ہے ،میرے خیال سے اگر ہمیں کسی بھی قسم کا ڈپر یشن یا مسلہ ہے تو ہم اس مسلے یا پریشانی کو قلم کے ذریعے ایک کاغذ پر اتار سکتے ہیں اور یہ تحریری مضمون یا اشعار کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے بے شک ایسا کرنے سے پریشانی کو ختم نہیں ہوگی لیکن شایدہمارا دل ہلکا ہو جائے اور ہم بہتر محسوس کر سکے کیونکہ کاغذ پر ہم وہ الفاظ بھی لکھ سکتے ہیں جو ہم دوسروں سے شئیر نہیں کر سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کرنماز اور قرآن کو اپنا معمول بنالیں کیونکہ خدا سے قربت ہمیں ڈپریشن سے دور رکھ سکتی ہے۔

لکھاری

انور سلطانہ


Previous Post Next Post