"شاید اسے جانور نے کھالیا تھا"

 

girl-of-desert-shahbaz-gohar-urdu-story

لمبی سڑکیں صحراؤں کی بیٹیاں ہیں.جنہیں پتا ہے کہ پانی ہونے کا دھوکہ کیسے دیا جاتا ہے.آنکھوں کو کئی طرح کے دھوکے دیئے جاسکتے ہیں شاید رنگوں جتنے.ہاتھوں کو خوشبو اور کانوں کو لمس کی چاہت نہیں ہوتی تو اُن کے دھوکے مخصوص ہیں۔
 
اتنی خوبصورت لڑکی کو اس گمنام صحرا میں چھوڑ جانے کی وجہ کوئی دھوکہ یا انتقام ہی ہوسکتی تھی.وہ ریت پر بےہوش پڑی تھی."تمہارے ہاتھوں پر قصے کہانیوں والے پھول اگائے جاسکتے ہیں" اور ثابت ہوا کہ خوبصورت جملے سے آنکھیں کُھل جاتی ہیں اور ایک خاص تبدیلی رونما ہوتی ہے.اس کے ہاتھ کسی بدصورت مخلوق کے ہاتھوں میں تھے.لڑکی کے ہلنے پر یہ برہنہ بدصورت تھوڑا پیچھے ہٹ کر ایک چوکنے شکاری جانور کی طرح ریت پر بیٹھ گیا اور اسے گُھورنے لگا.پیاس کی شدت اور کمزوری کی وجہ سے لڑکی سے کسی قسم کا کوئی احتجاج نہ ہوسکا لیکن دونوں ایک دوسرے سے ڈر رہے تھے.شاید صحرا میں حُسن اور بدصورتی ایک جیسا ڈر تخلیق کررہے تھے.دلچسپ خوف.لڑکی عین اُسی جگہ تھی جہاں صحرائی کو پانی محسوس ہوا تھا.(دھوکہ)
 
صحرائی کا ماننا تھا کہ انسان تو وہ ہوتے ہیں جن کی پسلیاں نظر آرہی ہوں اور وہ اُس کے جیسے کالے اور برہنہ ہوں۔ان کے ہاں ایک روایت یہ بھی تھی کہ دنیا میں ایک جگہ ایسی ہے جسے دریا کہا جاتا ہے اور اس میں کود کے مرنے والا دنیا کا سب سے زیادہ خوش نصیب شخص ہوتا ہے."تمہارے جسم سے آنے والی خوشبو کسی جھاڑی یا پودے سے بھی نہیں آئی.ایسی خوشبو صرف اس کھانے سے آسکتی ہے جس کی خواہش میں نے اپنے بڑوں سے سنی ہے"۔

ڈرنے کیلئے بھی ایک خاص ہمت چاہیئے ہوتی ہے سو لڑکی ڈر بھی نہیں رہی پر وہ بول رہا تھا " تمہاری آنکھوں کا رنگ نیلا اور سفید ہے جبکہ یہ کالا اور ریت جیسا ہوتا ہے. تم نے ریت پر شاید پہلی دفعہ پاؤں رکھا ہے یعنی تم اس دنیا کی نہیں ہو"۔

وہ اسے انسان تسلیم کرتے کرتے رُک گیا اور صحرائی کو اس کا اپنا ڈر اور زیادہ خوفناک بنانے لگا۔
 
"اوئے عجیب! تمہیں پتا ہے میں نے بچپن میں درخت دیکھا ہوا ہے. وہ دیوتا ہوتے ہیں. درخت جتنی کُھردری کھال والے شخص کی عزت کی جاتی ہے. میں تمہاری عزت نہیں کرسکتا کیونکہ یہ میری تربیت میں نہیں ہے. پر تم کیا ہو کیا میں تمہیں چُھو سکتا ہوں"؟

لڑکی ڈر گئی، یعنی اور زیادہ ڈر گئی اور بولنے سے رُک گئی کہ کہیں یہ بولنا بند نا کردے۔
 
کیا تم ان نازک پیروں سے چل لیتی ہو؟ چلا اس طرح کے پیروں سے جاتا ہے(اُس نے اپنے پیروں کی طرف اشارہ کیا) اور میں پانی ڈھونڈتا ڈھونڈتا یا پانی کا پیچھا کرتے ہوئے بھٹک گیا ہوں. اے نرم کھال والی! مجھے تمہاری عزت نہیں کرنی چاہیئے پر اگر مجھے پانی مل گیا تو وہ میں تمہیں دے دوں گا۔

لڑکی حیران یا پھر خُوش ہورہی تھی. اُسے کبھی کسی نے ایسے نہیں دیکھا تھا وہ اتنی خوبصورت بھی تو نہیں تھی لیکن حُسن کی پیمائش کا واحد معیار"موازنہ" ہے اور یہاں وہ نسبتاً خوبصورت تھی. لڑکی کی آنکھ سے آنسو نکلا جو خوشی کا آنسو کہلاتا ہے. صحرائی آنکھ سے نکلتا پانی دیکھ کر ہوش کھو بیٹھا اور لڑکی پر جھپٹ پڑا اور اسکی آنکھیں نوچ لِیں. اُسے پانی مل گیا تھا اور لڑکی مرگئی تھی شاید اسے پانی بھی نہیں ملا تھا اور لڑکی مرگئی تھی (دھوکہ)۔
 
زبانیں مختلف ہونے کے باوجود بھی مرنے سے پہلے لڑکی نے وہ سب سُنا جو وہ سُننا چاہتی تھی اور صحرائی نے وہ سب کہا جو کہنے سے پانی مل جاتا ہے(شاید) اور اتنے میں صحرائی کو سامنے ایک اور جگہ پانی نظر آیا اور وہ ایک اور لڑکی (آنسو) کی چاہت میں اُس سمت بھاگا (دھوکہ)۔

Previous Post Next Post