یونانی دیوتا، 8 فروری کا الیکشن اور وہ

 

8 February election in Pakistan

یوں تو تمام عمر کئی مختلف موضوعات میں دلچسپی رہی ہے جنہیں پڑھتا، سمجھتا اور لکھتا رہا ہوں لیکن میں خود کو تاریخ کے طالب علم کے طور پر متعارف کروانا بہتر سمجھتا ہوں۔ تاریخ ایک دلکش موضوع ہے۔

ہمیشہ زندہ رہنے کا ایک ہی کلیہ ہے کہ آپ کچھ ایسا کریں کہ تاریخ آپکو یاد رکھے۔ میں نے گزشتہ بارہ تیرہ برسوں میں درجنوں نہیں سینکڑوں تاریخی کرداروں بارے پڑھا ہے۔ جن کرداروں نے مجھے متاثر کیا ان میں امام حسین ع، فرائیڈ، خالد بن ولید رض، لیونارڈو ڈاونچی، طریف بن مالک، ایکلیس، نکولا ٹیسلا، آئن سٹائن، ایڈولف ہٹلر، جولیس کائزر اور ابن سینا شامل ہیں۔ (ضروری نہیں میں ان سب کو پسند بھی کرتا ہوں، انہوں نے مجھے متاثر کیا ہے)۔

ان کرداروں میں جس کردار نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ گریک مائتھولوجی کا عظیم جنگجو ایکلیس ہے۔ ہومر اپنی نظم ایلیڈ میں کہتا ہے کہ جب ایکلیس کو یونانی بادشاہ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ ٹروئے کے خلاف جنگ میں سلطنت کا ساتھ دے تو ایکلیس اپنی ماں تھیٹس کے پاس جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ جنگ لڑنے جائے یا نہیں؟ تو ماں ایکلیس کو کہتی ہے کہ اگر تم جنگ لڑنے نہ گئے تو تم اپنے گھر میں خوش رہو گے، تمہاری شادی ہوگی، بچے ہوں گے اور تمہارے بچوں کے بچے اور ان کے بچے تمہیں یاد رکھیں گے لیکن تماری تیسری یا چوتھی نسل تمہیں بھول جائیں گے۔ تاہم اگر تم اس عظیم جنگ کا حصہ بنتے ہو تو تم اسی جنگ میں مارے جاؤ گے لیکن پھر آنے والی نسلیں، ان کی نسلیں اور ان کی نسلوں کی نسلیں تمہیں یاد رکھیں گے، آنے والی تمام نسلیں تمہارے نام کے گیت گایا کریں گی اور تاریخ میں تم ہمیشہ زندہ رہو گے۔ اس کے بعد ایکلیس جنگ لڑنے جاتا ہے، دنیا کی جنگی تاریخ کے بہادر ترین کرداروں میں سے ایک کردار بنتا ہے، اور ہزاروں سال بعد بھی میں اس تحریر میں اس کا حوالہ دے رہا ہوں۔

ہمارے ہاں ہم تمام عمر زیادہ سے زیادہ یہی دعا کرتے پائے جاتے ہیں کہ عزت کا جنازہ نصیب ہو لیکن جنازے کے بعد لوگ ہمیں یاد کیسے رکھیں گے یہ ہم نے کبھی نہیں سوچا۔ ہمیں کبھی بتایا، سکھایا اور پڑھایا ہی نہیں گیا کہ کچھ ایسا کرو کہ تاریخ میں تمہیں یاد رکھا جائے۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ اتنا کماؤ کہ سات نسلیں بیٹھ کر کھائیں۔ حالانکہ ایسی کمائی حلال بھی ہو تو لعنت ہے۔ کیا فائدہ ایسی کمائی کا جو کارآمد انسانوں کو گھر میں بیٹھ کر شراب و گندم ضائع کرنے کے علاوہ کچھ کرنے ہی نا دے۔ انسان کو درد دل کیلئے بنایا گیا ہے لیکن ہم سات نسلوں کیلئے کمانے کی تگ و دو میں اتنا جُتے ہوئے ہیں کہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ سارا ہم کما کر رکھ گئے تو وہ سات نسلیں کیا کریں گی؟ اور آیا کہ کمائی کے سلسلے میں ہم کس کس کا کیسے کیسے حق مار رہے ہیں؟ اور اس سب کے بعد ہمیں کن الفاظ میں یاد رکھا جائے گا؟ یاد رکھا بھی جائے گا یا نہیں؟

میانی صاحب قبرستان میں ایسے بہت سوں کی قبریں ہیں جنہوں نے اپنی سات نسلوں کیلئے کمایا لیکن ان کی پہلی ہی نسل کو معلوم نہیں کہ بابے کی قبر کہاں اور کس حال میں ہے۔ ایک نسل کے بعد سر نیم تک بدل جاتے ہیں۔

کمائی کی ہے نکولا ٹیسلا، ایکلیس، خالد بن ولید رض، ڈاونچی، سکند اعظم، جولیس کائزر (سیزر*)، فرائیڈ، محمد علی جناح اور بو علی سینا نے جن کی نسلیں تو نہیں ملتیں لیکن انکا نام تاریخ کے اوراق میں جلی حروف میں ہمیشہ کیلئے درج ہے۔ یہ تھے اہم ترین، متاثرکن، اپنے فن میں یکتا اور بڑے لوگ۔

اب بات کر لیں ان افراد کی جنہوں نے 8 فروری 2024 کے الیکشن میں دھاندلی کی۔ ڈیل اور ڈالر کیلئے جو کچھ ہوا ہے انتہائی شرمناک ہے۔ تاریخ چند دہائیوں تک ان کرداروں سے صرف اور صرف نفرت کرے گی اور پھر بھول جائے گی اور جن سات نسلوں کیلئے انہوں نے کمائیاں کی ہیں ان کی پہلی نسل ہی اُن کمائیوں کو لٹاتے ہوئے، کڑوے پانی یا زہریلے دھویں کو نگلتے ہوئے اپنے جننے والوں کو گندی گالیاں دے رہے ہوں گے۔

عثمان خادم کمبوہ

Previous Post Next Post